Saturday 4 May 2019

ہر چہرہ کب تازہ ہوتا ہے

ہر چہرہ کب تازہ ہوتا ہے 
کچھ چہروں پر غازہ ہوتا ہے 
خواب تو گروی رکھنے پڑتے ہیں 
جینے کا خمیازہ ہوتا ہے 
دیواروں کے کان نہیں ہوتے 
بیچ میں اک دروازہ ہوتا ہے 
رات کو شاید تم بھی نہیں سوئے
آنکھوں سے اندازہ ہوتا ہے 
تنہائی جب بولنے لگتی ہے 
سناٹا آوازہ ہوتا ہے 

ناز مظفرآبادی

No comments:

Post a Comment