میں سرد مہر زندگی سے کیا طلب کروں
طلب تو ایک بحر ہے
زندگی تو سانس کی لپکتی ایک لہر ہے
جو آ کے پھر گزر گئی
چند سال اس کے نقشِ پا
یہیں کہیں کسی کے ذہن میں رہے
میں دیکھتا ہوں
شاخِ عمر زرد موسموں کی دھوپ میں
اسی خیالِ خام میں
کہ وقت گھڑی کی قید میں ہے
برگ برگ جھک گئی ہے
زندگی نے کیا دیا مجھے
طرح طرح کے عارضے، دماغ کا بخار
اختلال اور حواس کے شعور کا ملال
رات کو میں جاگتا رہوں
تمام دن بقا کی آرزو میں افسروں کے خوف سے
نشست گاہِ انتظار میں بہت ہی پھیکی مسکراہٹوں کے ساتھ
فیصلے کے انتظار میں لہو کی گردشوں کے ساتھ
ذات کی عظیم سلطنت کو آگ میں لپٹا دیکھتا رہوں
یہ سگریٹوں کا نیلگوں دھواں غبار ہی غبار
بھاگتا سوار، اسپ کا سنہری نعل راستے میں چھوڑ کر کدھر گیا
یہ شور اب کدھر سے آ رہا ہے
غور سے سنو
نہیں یہ کچھ نہیں
میں انتظار کی طویل ساعتوں میں ناخنوں سے میز کو بجا رہا ہوں
پر وہ کاغذوں میں غرق ہے
بہت قدیم رات ابتدا سے انتہا کے لازوال بحر میں اتر گیا ہوں
سارے دن کے غم کو میں
نشے کی اک ردا میں ڈھانپ دوں
مگر نشہ حرام، جرم ہے
تو پھر پلٹ کے میں خیال میں مقیم عشرتوں کو آئینوں میں دیکھ لوں
لذیز تھرتھراتے جسم
ڈھول کی دھمک پہ لہر لہر کھل رہے ہیں
الاماں محرمات
میں سرد مہر زندگی سے کیا طلب کروں
کہ وہ بھی خود اسیر ہے
انیس ناگی
No comments:
Post a Comment