میں ڈھونڈتا ہوں جسے وہ جہاں نہیں ملتا
نئی زمین، نیا آسماں نہیں ملتا
نئی زمین، نیا آسماں مل بھی جائے
نئے بشر کا کہیں کچھ نشاں نہیں ملتا
جو اک خدا نہیں ملتا تو اتنا ماتم کیوں
وہ میرا گاؤں ہے وہ میرے گاؤں کے چولہے
کہ جن میں شعلے تو شعلے دھواں نہیں ملتا
کھڑا ہوں کب سے میں چہروں کے ایک جنگل میں
تمہارے چہرے کا کچھ بھی یہاں نہیں ملتا
وہ تیغ مل گئی جس سے ہوا ہے قتل مِرا
کسی کے ہاتھ کا اس پر نشاں نہیں ملتا
کیفی اعظمی
آج کیفی اعظمی کی برسی ہے
No comments:
Post a Comment