Friday, 10 May 2019

میں ڈھونڈتا ہوں جسے وہ جہاں نہیں ملتا

میں ڈھونڈتا ہوں جسے وہ جہاں نہیں ملتا
نئی زمین، نیا آسماں نہیں ملتا
نئی زمین، نیا آسماں مل بھی جائے
نئے بشر کا کہیں کچھ نشاں نہیں ملتا
جو اک خدا نہیں ملتا تو اتنا ماتم کیوں 
یہاں تو کوئی مِرا ہم زباں نہیں ملتا
وہ میرا گاؤں ہے وہ میرے گاؤں کے چولہے 
کہ جن میں شعلے تو شعلے دھواں نہیں ملتا 
کھڑا ہوں کب سے میں چہروں کے ایک جنگل میں 
تمہارے چہرے کا کچھ بھی یہاں نہیں ملتا 
وہ تیغ مل گئی جس سے ہوا ہے قتل مِرا
کسی کے ہاتھ کا اس پر نشاں نہیں ملتا

کیفی اعظمی 

آج کیفی اعظمی کی برسی ہے

No comments:

Post a Comment