Sunday 5 May 2019

دلکش و شگفتہ سے خوشنما سہانے سے

دل کش و شگفتہ سے خوشنما سہانے سے
دل میں کچھ کھلونے ہیں آپ کے پرانے سے
آ بسا وہاں فوراً کوئی دوسرا پنچھی
اڑ گیا تھا اک پنچھی اپنے آشیانے سے
جب بھی مسکرایا ہوں تیر کھا کے آیا ہوں
اب تو خوف آتا ہے مجھ کو مسکرانے سے
برہمی سجاوٹ کا روپ دھار لیتی ہے
کیا حسیں لگتے ہیں وہ غضب دلانے سے
بندگی کی لذت تو صرف انہیں کا حصہ ہے
پھوڑتے ہیں جو سر کو تیرے آستانے سے
ناظمانِ مقتل کو صرف یہ عدؔم پوچھو
کیا کوئی ڈرا بھی ہے آج تک ڈرانے سے

عبدالحمید عدم

No comments:

Post a Comment