Sleeping With The Enemy
پھنکارتی
ناگن کے پھن پہ سر کو رکھے رات بھر سویا رہا تھا میں
نہ جانے سرسراتی نیند تھی
یا ہسہساتی بے حسی
نیلی غشی
یا زہر مہرہ خامشی تھی وہ
جہاں تک یاد پڑتا ہے، سلگتی نیند تھی وہ
وہ میری جسم پر کُنڈل گھما کر
گیلا لچکیلا شکنجہ کس کے
اک بے ساختہ انگڑائی لیتی
تو مِرے پِنجر کی چُولیں ٹوٹ جاتیں
اور چٹختی ہڈیاں پھٹتے ہوۓ عضلات میں چبھ کر
مِرے اندر سے ہِلتے ماس سے باہر نکل کر اس کے کُنڈل میں اترتیں
تو شکنجہ توڑ کر وہ گھومتی شُوکر پہ اپنا پھن اٹھا کر بیٹھ جاتی
اور مقناطیس آنکھوں سے عمل کرتی
مِرا ٹوٹا ہوا ہر جوڑ اک جھٹکے سے جڑتا
جس طرح دو آتشہ بندوق کی نالی کے روزن کارتوسوں کی غذا کھاتے ہیں
اور لٹکی ہوئی بندوق کی نالی کسی جھٹکے سے جڑتی ہے
وہی پھر ہو رہا تھا
کہ میں پھنکارتی ناگن کے پھن پہ سو رہا تھا
وحید احمد
No comments:
Post a Comment