یہی نہیں کہ فقط خاک ہو گیا ہو گا
جہانِ دل خس و خاشاک ہو گیا ہو گا
سنا ہے اب وہ فقیروں سے جھک کے ملتا ہے
رموزِ عشق کا ادراک ہو گیا ہو گا
مگر جو داغ تری روح پر لگے ہیں، وہ
منافقوں کی کوئی بات لڑ گئی ہو گی
مزاجِ یار غضب ناک ہو گیا ہو گا
یہ ترکِ لمس کے بِدعت گزار سوچتے ہیں
کہ یار چھُونے سے ناپاک ہو گیا ہو گا
علی زریون
No comments:
Post a Comment