Wednesday 15 May 2019

یہی نہیں کہ فقط خاک ہو گیا ہو گا

یہی نہیں کہ فقط خاک ہو گیا ہو گا
جہانِ دل خس و خاشاک ہو گیا ہو گا
سنا ہے اب وہ فقیروں سے جھک کے ملتا ہے
رموزِ عشق کا ادراک ہو گیا ہو گا
مگر جو داغ تری روح پر لگے ہیں، وہ
بدن تو بعدِ وضو پاک ہو گیا ہو گا
منافقوں کی کوئی بات لڑ گئی ہو گی
مزاجِ یار غضب ناک ہو گیا ہو گا
یہ ترکِ لمس کے بِدعت گزار سوچتے ہیں
کہ یار چھُونے سے ناپاک ہو گیا ہو گا

علی زریون

No comments:

Post a Comment