چلو پھر ہم صف آراء ہوں
چلو ہم پھر صف آراء ہوں
صف آراء ہوں
کہ دُشمن چار سُو آئے
کہ قاتل رُوبرُو آئے
کہ اُن کے کاسۂ خالی میں
کہ بُجھ جائے ہر اِک مشعل
تو ظُلمت کُو بکُو آئے
کہ اہلِ صدق و ایماں بے سہارا ہوں
چلو ہم پھر صف آراء ہوں
صف آراء ہوں، کہ پہلے بھی
ستم ایجاد آئے تھے
نشانِ ظُلم اُٹھائے تھے
لہو سے تر بتر خنجر
قباؤں میں چُھپائے تھے
ہوس کی تُند آندھی نے
دیے کیا کیا بُجھائے تھے
جو اب دستِ ستم اُٹھے
مثالِ سنگِ خارا ہوں
چلو ہم پھر صف آراء ہوں
صف آراء ہوں کہ پھر آئیں
تو قاتل سرنِگُوں جائیں
پشیمان و زبُوں جائیں
گنوا کر اپنے جسم و جاں
بہا کر اپنا خُوں جائیں
عدو سفاک ارادوں سے
اگر آئیں تو یوں جائیں
کہ شرمندہ دوبارہ ہوں
چلو ہم پھر صف آراء ہوں
احمد فراز
No comments:
Post a Comment