دُنیا کو دِکھانی ہے اِک شکل خیالوں کی
آؤ کہ بنائیں ہم، تصویر اُجالوں کی
پل بھر کو مرے گھر میں، آئی جو پری اُڑ کر
کی اُس نے بسر مجھ میں سو رات وصالوں کی
ہم دیتے چلے جائیں کِس کِس کا جواب آخر
شاعر ہی تو دیتے ہیں تشبہیہ گھٹاؤں سے
ہم قدر بڑھاتے ہیں، تم گیسوؤں والوں کی
اے دوست ادب اپنا پھر کیوں نہ ہو صحت مند
بنتی ہیں مری غزلیں خوراک رسالوں کی
بے چین قتیلؔ! اُن بِن، ہم ہی تو نہیں تنہا
اُن کو بھی ضرورت ہے ہم چاہنے والوں کی
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment