Wednesday 20 February 2013

دنیا کو دکھانی ہے اک شکل خیالوں کی

دُنیا کو دِکھانی ہے اِک شکل خیالوں کی
آؤ کہ بنائیں ہم، تصویر اُجالوں کی
پل بھر کو مرے گھر میں، آئی جو پری اُڑ کر
کی اُس نے بسر مجھ میں سو رات وصالوں کی
ہم دیتے چلے جائیں کِس کِس کا جواب آخر
رفتار نہیں گھٹتی، دُنیا کے سوالوں کی
شاعر ہی تو دیتے ہیں تشبہیہ گھٹاؤں سے
ہم قدر بڑھاتے ہیں، تم گیسوؤں والوں کی
اے دوست ادب اپنا پھر کیوں نہ ہو صحت مند
بنتی ہیں مری غزلیں خوراک رسالوں کی
بے چین قتیلؔ! اُن بِن، ہم ہی تو نہیں تنہا
اُن کو بھی ضرورت ہے ہم چاہنے والوں کی

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment