دیکھنا یہ ہے
آج اغیار کے تیروں سے بدن پر میرے
پھر وہی زخم چمکتے ہیں ستاروں کی طرح
پھر اُسی دُشمنِ جاں، دُشمنِ دِیں کے ہاتھوں
میرا ملبوس ہے گلرنگ بہاروں کی طرح
پھر مرے دیس کی مٹّی سے لہو رِستا ہے
میرے دُشمن، میرے قاتل نے ہمیشہ کی طرح
پھر سے چاہا کہ شکستہ مرا پندار کرے
جس طرح رات کا سفّاک شکاری چاہے
کہ وہ سُورج کی شعاعوں کو گرفتار کرے
یا چراغِ سرِ دیوار کو تنہا پا کر
جس طرح تند ہوا ٹُوٹ کے یلغار کرے
میرے دُشمن نے یہ سوچا ہی نہیں تھا شاید
یہ دِیا بادِ فنا سے بھی بھڑک سکتا ہے
اس کو قوّت پہ تکبّر ہے، مگر مجھ کو یقیں
دستِ حق، بازوئے قاتل کو جھٹک سکتا ہے
میرے جلّاد کو معلوم نہیں ہے شاید
میرا دل، دستِ اجل میں بھی دھڑک سکتا ہے
جانے کس زعم میں آیا تھا مقابل میرے
وہ اندھیروں کا پُجاری، وہ اُجالے کا عدُو
اس نے اِک مشعلِ تاباں کو بُجھانا چاہا
اور فضا میں لپک اُٹھے ہیں کروڑوں بازو
میرا مشرق ہو کہ مغرب میرے سارے اطراف
میری قوّت، میرا پیکر، مری جاں، میرا لہو
دیکھنا یہ ہے کہ اس باطل و حق کے رَن میں
رات مرتی ہے کہ زنجیرِ سحر ہوتی ہے
آخری فتح مری ہے، مرا ایمان ہے یہ
جس طرح ڈُوبتے سُورج کو خبر ہوتی ہے
میں تو سو بار اسے اپنا مقدّر کر لوں
جس شہادت سے مری ذات امر ہوتی ہے
احمد فراز
No comments:
Post a Comment