Thursday 11 August 2016

کیسا رستہ ہے کیا سفر ہے

کیسا رستہ ہے کیا سفر ہے
اڑتی ہوئی گرد پر نظر ہے
ڈسنے لگی فاختہ کی آواز
کتنی سنسان دو پہر ہے
آرام کریں کہ راستہ لیں
وہ سامنے اک گھنا شجر ہے
خود سے ملتے تھے جس جگہ ہم
وہ گوشۂ عافیت کدھر ہے
ایسے گھر کی بہار معلوم
جس کی بنیاد آگ پر ہے

باقی صدیقی

No comments:

Post a Comment