Tuesday 23 August 2016

دل کی خبر نہ ہوش کسی کو جگر کا ہے

دل کی خبر نہ ہوش کسی کو جگر کا ہے
اللہ اب یہ حال تمہاری نظر کا ہے
اس سمت دیکھتی بھی نہیں رخ جدھر کا ہے
سب سے جدا اصول تمہاری نظر کا ہے
سب رفتہ رفتہ داغ الم دے گئے، مگر
محفوظ ہے وہ زخم جو پہلی نظر کا ہے
میرے دل حزیں میں کہاں تاب اضطراب
جو کچھ کمال ہے وہ تمہاری نظر کا ہے
کس طرح دیکھوں جلوۂ جاناں کو بے حجاب
پردہ پڑا ہوا مِرے آگے نظر کا ہے
پیہم ہجوم یاس سے آتا نہیں یقین
تم میرے سامنے ہو یا دھوکا نظر کا ہے

جگر مراد آبادی

No comments:

Post a Comment