دل کی خبر نہ ہوش کسی کو جگر کا ہے
اللہ اب یہ حال تمہاری نظر کا ہے
اس سمت دیکھتی بھی نہیں رخ جدھر کا ہے
سب سے جدا اصول تمہاری نظر کا ہے
سب رفتہ رفتہ داغ الم دے گئے، مگر
میرے دل حزیں میں کہاں تاب اضطراب
جو کچھ کمال ہے وہ تمہاری نظر کا ہے
کس طرح دیکھوں جلوۂ جاناں کو بے حجاب
پردہ پڑا ہوا مِرے آگے نظر کا ہے
پیہم ہجوم یاس سے آتا نہیں یقین
تم میرے سامنے ہو یا دھوکا نظر کا ہے
جگر مراد آبادی
No comments:
Post a Comment