اک مۓ بے نام، جو اس دل کے پیمانے میں ہے
وہ کسی شیشے میں ہے ساقی، نہ میخانے میں ہے
پوچھنا کیا، کتنی وسعت میرے پیمانے میں ہے
سب الٹ دے ساقیا! جتنی بھی میخانے میں ہے
یوں تو ساقی، ہر طرح کی، تیرے میخانے میں ہے
ایک ایسا راز بھی دل کے نہاں خانے میں ہے
لطف جس کا کچھ سمجھنے میں نہ سمجھانے میں ہے
یاد ایامے، کہ جب تھا ہرنفس اک زندگی
زندگی اب ہر نفس کے ساتھ مر جانے میں ہے
ایک کیفِ نا تمام درد کی لذت ہی کیا؟
درد کی لذت سراپا درد بن جانے میں ہے
غرق کر دے تجھ کو زاہد! تیری دنیا کو خراب
کم سے کم اتنی تو ہر میکش کے پیمانے میں ہے
پھر نقاب اس نے الٹ کر روحِ تازہ پھونک دی
اب نہ کعبے میں ہے سناٹا نہ بت خانے میں ہے
منتشر کر دے اسے بھی حسنِ بے پایاں کے ساتھ
زندگی شیرازۂ دل کے بکھر جانے میں ہے
پی بھی جا زاہد! خدا کا نام لے کر پی بھی جا
بادۂ کوثرکی بھی اک موج پیمانے میں ہے
شیشہ مست و بادہ مست و حسن مست و عشق مست
آج پینے کا مزہ، پی کر بہک جانے میں ہے
بے تحاشا پی رہے ہیں کب سے رِندانِ الست
آج بھی اتنی ہی مے ہر دل کے پیمانے میں ہے
حسن کی اک اک ادا پر جان و دِل صدقے، مگر
لطف کچھ دامن بچا کر ہی گزر جانے میں ہے
جگر مراد آبادی
No comments:
Post a Comment