اجنبی سا اک ستارہ ہوں میں سیاروں کے بیچ
اک جدا کردار ہوں اپنے ہی کرداروں کے بیچ
پھر رہی ہوں بے سبب پاگل ہوا سی جا بجا
دھند میں لپٹے ہوئے خاموش کہساروں کے بیچ
اس حصارِ خاک کو جب توڑ کر نکلوں گی میں
شکل یہ بہتر ہے، لیکن پختگی کے واسطے
آؤ مٹی کو رکھیں کچھ دیر انگاروں کے بیچ
کچھ کڑے ٹکراؤ دے جاتے ہیں اکثر روشنی
جوں چمک اٹھتی ہے کوئی برق تلواروں کے بیچ
علینا عترت
No comments:
Post a Comment