Sunday 14 August 2016

اجنبی سا اک ستارہ ہوں میں سیاروں کے بیچ

اجنبی سا اک ستارہ ہوں میں سیاروں کے بیچ
اک جدا کردار ہوں اپنے ہی کرداروں کے بیچ
پھر رہی ہوں بے سبب پاگل ہوا سی جا بجا
دھند میں لپٹے ہوئے خاموش کہساروں کے بیچ
اس حصارِ خاک کو جب توڑ کر نکلوں گی میں
ڈھونڈتے رہ جاؤ گے تم مجھ کو دیواروں کے بیچ
شکل یہ بہتر ہے، لیکن پختگی کے واسطے
آؤ مٹی کو رکھیں کچھ دیر انگاروں کے بیچ
کچھ کڑے ٹکراؤ دے جاتے ہیں اکثر روشنی
جوں چمک اٹھتی ہے کوئی برق تلواروں کے بیچ

علینا عترت

No comments:

Post a Comment