ایسے کو شبِ وصل لگائے کوئی کیا ہاتھ
ہر بار جھٹک کر جو کہے ٹوٹے ترا ہاتھ
یوں آپ کریں غیر کے شکوے مرے آگے
یہ آپ کے مضمون نیا آج لگا ہاتھ
اس بات کے ملنے کی بھی کچھ پائی گئی بات
یہ رشک ہے تو آپ ہے اب دل کو شکایت
ظالم مِرے ملنے سے نہ تو ایسا اٹھا ہاتھ
پھر میں تپشِ دل کی شکایت نہ کروں گا
رکھ دے مِرے سینے پہ ذرا مہندی لگا ہاتھ
اس دستِ نگاریں کو ذرا میں نے چھوا تھا
کس ناز سے کہنے لگے اف چھوڑ، گیا ہاتھ
ایسی نگہ یاس سے دیکھا تہہ خنجر
قاتل نے مجھے دیکھتے ہی روک لیا ہاتھ
نظام رامپوری
No comments:
Post a Comment