وہ نہیں آتا گر نہیں آتا
جا کے کیوں نامہ بر نہیں آتا
آپ سے ایسی بے وفائی ہو
یہ یقیں آپ پر نہیں آتا
یاد آتا ہے اس کا جب آنا
ہائے گر ایسا جانتا تو کبھی
تجھ سے میں روٹھ کر نہیں آتا
جو مرے دیکھنے کو آتا ہے
پھر وہ بارِ دِگر نہیں آتا
تم سے کہنے کو ہوں کچھ اپنا حال
دل سے لب تک مگر نہیں آتا
یا خدا تجھ سے اور کیا چاہوں
ایک مطلب تو بر نہیں آتا
کچھ کا کچھ حال ہو گیا ہوتا
اور دم بھر اگر نہیں آتا
نہ سہی لطف کچھ کہیں تو وہ
غصہ بھی اس قدر نہیں آتا
سچ ہے میرا قصور ہے، سچ ہے
تم سے تو کوئی بر نہیں آتا
دیکھیے کیا ہو حالِ دل وہ نظامؔ
کئی دن سے نظر نہیں آتا
نظام رامپوری
No comments:
Post a Comment