Monday 15 August 2016

ہے شکل تیری گلاب جیسی

ہے شکل تیری گلاب جیسی
نظر ہے تیری شراب جیسی
ہوا سحر کی ہے ان دنوں میں
بدلتے موسم کے خواب جیسی
صدا ہے اک دوریوں میں اوجھل
مِری صدا کے جواب جیسی
وہ دن تھا دوزخ کی آگ جیسا
وہ رات گہرے عذاب جیسی
یہ شہر لگتا ہے دشت جیسا
چمک ہے اسکی سراب جیسی
منیرؔ تیری غزل عجب ہے
کسی سفر کی کتاب جیسی

منیر نیازی

No comments:

Post a Comment