ہر دریچے میں مِرے قتل کا منظر ہو گا
شام ہو گی تو تماشا یہی گھر گھر ہو گا
پل کی دہلیز پہ گر جاؤں گا بے سدھ ہو کر
بوجھ صدیوں کی تھکن کا میرے سر پر ہو گا
میں بھی اک جسم ہوں سایہ تو نہیں ہوں تیرا
اپنی ہی آنچ میں پگھلا ہوا چاندی کا بدن
سرحد لمس تک آتے ہوئے پتھر ہو گا
لوگ اس طرح تو شکلیں نہ بدلتے ہوں گے
آئینہ اب اسے دیکھے گا تو ششدر ہو گا
سر پٹکتے ہیں جو بگلے وہی موجوں کی طرح
اب جو صحرا ہے کسی دن یہ سمندر ہو گا
دشتِ تدبیر میں جو خاک بسر ہے مخمورؔ
ہو نہ ہو میرا ہی آوارہ مقدر ہو گا
مخمور سعیدی
No comments:
Post a Comment