Wednesday 10 August 2016

کیوں جہالت کا جل رہا ہے دیا

کیوں جہالت کا جل رہا ہے دیا
چل رے درویش، پھونک مار، بجھا
کوئی دنیا نظر نہیں آئی
میں ہی تھا اور میں دکھائی دیا
ذائقہ گہری نیند جیسا تھا
میں کسی کو مگر بتا نہ سکا
ہوش کے پار، ہوش تھا ہی نہیں
آنکھ کھولی تو کچھ نہیں دیکھا
فلم سی چل رہی تھی پردے پر
تیری تصویر سے گلے نہ ملا
غم کے منطر بدل بدل کے کھُلے
مستقل کچھ بھی سامنے نہ رہا
کیا کہوں رب سے، تُو بتا مسعودؔ
یاد کوئی نہیں ہے حرفِ دعا

مسعود منور

No comments:

Post a Comment