حق و ناحق جلانا ہو کسی کو تو جلا دینا
کوئی روئے تمہارے سامنے تو مسکرا دینا
تردد برق ریزوں میں تمہیں کرنے کی کیا حاجت
تمہیں کافی ہے ہنسنا، دیکھ لینا، مسکرا دینا
تکلف برطرف کیوں پھول لے کر آؤ تُربت پر
مگر جب فاتحہ کو ہاتھ اٹھانا، مسکرا دینا
ہوئی بجلی سے کس دن نقل اندازِ ستم گاری
تمہاری طرح سیکھا لاکھ اس نے مسکرا دینا
نہ جانا ناتوانی پر کہ اب بھی سعئ ناخن سے
دِکھا سکتے ہیں ہم زخمِ کُہن کا مسکرا دینا
سائل دہلوی
No comments:
Post a Comment