ایک دن زندگی کے ساتھ
یہ آغازِِ بہاراں بھی نمودِ زندگانی ہے
مِرا ماضی، وہی منظر، وہی لمحے
جنہیں میں بھول جانے کا گماں بھی کر نہیں سکتا
مِری حالت پہ ہنستے ہیں
میں ہنسنا بھول بیٹھا ہوں
مگر کچھ قہقہے جو پردۂ گوشِ سماعت پر
مجھے آواز دیتے ہیں
رگِ جاں کھینچ لیتے ہیں
مِرا ماضی، وہی منظر، وہی لمحے
جنہیں میں بھول جانے کا گماں بھی کر نہیں سکتا
مِری حالت پہ ہنستے ہیں
میں ہنسنا بھول بیٹھا ہوں
مگر کچھ قہقہے جو پردۂ گوشِ سماعت پر
مجھے آواز دیتے ہیں
رگِ جاں کھینچ لیتے ہیں
وہ آنکھیں جو مِری آنکھوں کو بہتا چھوڑ آئی تھیں
سمے کی مہربانی سے، وہی آنکھیں
مِرے ہمراہ بھی ہیں اور میرے سامنے بھی
تعلق ٹوٹ جانے پر نشاں تو مِٹ نہیں سکتے
بہت کچھ ایک جیسا عالمِ امکان میں موجود رہتا ہے
حصارِ قصرِ شاہی میں ہوا مجھ سے مخاطب ہے
کسی بے نام خواہش نے اچانک سر اٹھایا ہے
مسلسل ایک دستک پھر دلِ نازک پہ جاری ہے
کئی سرگوشیوں کو چیرتی آواز آتی ہے
سنو عابدؔ! یہ آنکھیں وہ نہیں
روشن دِیئے ہیں، زندگی تقسیم کرتے ہیں
سمے کی مہربانی سے، وہی آنکھیں
مِرے ہمراہ بھی ہیں اور میرے سامنے بھی
تعلق ٹوٹ جانے پر نشاں تو مِٹ نہیں سکتے
بہت کچھ ایک جیسا عالمِ امکان میں موجود رہتا ہے
حصارِ قصرِ شاہی میں ہوا مجھ سے مخاطب ہے
کسی بے نام خواہش نے اچانک سر اٹھایا ہے
مسلسل ایک دستک پھر دلِ نازک پہ جاری ہے
کئی سرگوشیوں کو چیرتی آواز آتی ہے
سنو عابدؔ! یہ آنکھیں وہ نہیں
روشن دِیئے ہیں، زندگی تقسیم کرتے ہیں
عابد حسین عابد
No comments:
Post a Comment