کیوں ان کی چال دیکھی جو یہ حال ہو گیا
میں آپ اپنے ہاتھ سے پامال ہو گیا
کچھ قیس سے بھی بڑھ کے مرا حال ہو گیا
کس قہر کا جنوں مجھے امسال ہو گیا
میں بدنصیب، غیر خوش اقبال ہو گیا
مژدہ سنا ازل کو جو بلبل کے عشق کا
مارے خوشی کے چہرۂ گل لال ہو گیا
دریا بہا مِرے عرقِ انفعال کا
کاغذ کی ناؤ نامۂ اعمال ہو گیا
ہم پِس گئے خرام پہ تو یار نے کہا
پاپوش سے اگر کوئی پامال ہو گیا
ساقی تِرے کرم سے ترقی مِری ہوئی
جامِ شراب نیر اقبال ہو گیا
مجھ سے فضول خرچ کے ہتھے جو چڑھ گیا
دو دن میں آسمان بھی کنگال ہو گیا
لے لے گی ہم کو پیار سے آغوش میں زمیں
کیا غم عدو جو چرخِ بد افعال ہو گیا
روۓ جو یادِ گیسوئے جاناں میں اے صباؔ
دامانِ ابر بھیگ کے رومال ہو گیا
صبا لکھنوی
No comments:
Post a Comment