Thursday, 11 August 2016

کیوں ان کی چال دیکھی جو یہ حال ہو گیا

کیوں ان کی چال دیکھی جو یہ حال ہو گیا
میں آپ اپنے ہاتھ سے پامال ہو گیا
کچھ قیس سے بھی بڑھ کے مرا حال ہو گیا
کس قہر کا جنوں مجھے امسال ہو گیا
میں بدنصیب، غیر خوش اقبال ہو گیا
یہ آپ کے مزاج کا کیا حال ہو گیا
مژدہ سنا ازل کو جو بلبل کے عشق کا
مارے خوشی کے چہرۂ گل لال ہو گیا
دریا بہا مِرے عرقِ انفعال کا
کاغذ کی ناؤ نامۂ اعمال ہو گیا
ہم پِس گئے خرام پہ تو یار نے کہا
پاپوش سے اگر کوئی پامال ہو گیا
ساقی تِرے کرم سے ترقی مِری ہوئی
جامِ شراب نیر اقبال ہو گیا
مجھ سے فضول خرچ کے ہتھے جو چڑھ گیا
دو دن میں آسمان بھی کنگال ہو گیا
لے لے گی ہم کو پیار سے آغوش میں زمیں
کیا غم عدو جو چرخِ بد افعال ہو گیا
روۓ جو یادِ گیسوئے جاناں میں اے صباؔ
دامانِ ابر بھیگ کے رومال ہو گیا

صبا لکھنوی

No comments:

Post a Comment