افق افق نئے سورج نکلتے رہتے ہیں
دیئے جلیں نہ جلیں، داغ جلتے رہتے ہیں
مِری گلی کے مکیں یہ مِرے رفیقِ سفر
یہ لوگ وہ ہیں جو چہرے بدلتے رہتے ہیں
زمانے کو تو ہمیشہ سفر میں رہنا ہے
ہزار سنگ گراں ہو، ہزار جبر زماں
مگر حیات کے چشمے ابلتے رہے ہیں
یہ اور بات کہ ہم میں ہی صبر و ضبط نہیں
یہ اور بات کہ لمحات ٹلتے رہتے ہیں
یہ وقت شام ہے یا رب! دل و نظر کی ہو خیر
کہ اس سمے میں تو سائے بھی ڈھلتے رہتے ہیں
کبھی وہ دن تھے زمانے سے آشنائی تھی
اور آئینے سے اب اخترؔ بہلتے رہتے ہیں
اختر ہوشیار پوری
No comments:
Post a Comment