آفت ہے مصیبت ہے قیامت ہے بلا ہے
یہ عشقِ ستم گار خدا جانئے کیا ہے
سب میری خطا ہے کہ زمانہ کی ہوا ہے
دل ہے کہ اسی سوچ میں دن رات لگا ہے
سایہ سا نگاہوں میں مِری کوئ بسا ہے
کب ہم کو تِرے درد سے انکار رہا ہے
یہ غم ہی تو اک عمر کی محنت کا صلا ہے
بدلا ہے نہ بدلے گا یہ دستورِ زمانہ
ہے دشت وہی،۔ اور وہی آبلہ پا ہے
ہو جاتی تِرے آنے سے تصدیقِ بہاراں
سب کہتے ہیں کہ یہ بھی تِری ایک ادا ہے
یوں دل میں شش و پنج کی ہے آنکھ مچولی
جیسے کوئ چھپ چھپ کے مجھے دیکھ رہا ہے
تم یوں نہ کرو سرورِؔ ناکام سے نفرت
ہے کچھ سے تو اچھا جو یہ لاکھوں سے برا ہے
سرور عالم راز
No comments:
Post a Comment