تنہا ہی سُلگنا کیوں، اُجڑی ہوئی بانہوں میں
تقدیر کی سولی پر کیوں رات بسر کرنا
یہ علم ترا کیا ہے، بوسیدہ کُتب خانہ
کب اس میں سکھاتے ہیں کنکر کو گُہر کرنا
یہ بوجھ کتابوں کا، کشتی کو ڈبو دے گا
اس عشق کی منزل کا رستہ تو عمودی ہے
سیکھا ہی نہیں تم نے لیکن یہ سفر کرنا
اس جسم کی مٹی میں اک غار ہے دل نامی
اِس غار میں جو دیکھو مٹی کو خبر کرنا
تقلید کے مٖفتی کو درپیش محبت ہے
مسعودؔ کو آتا ہے یہ معرکہ سر کرنا
مسعود منور
No comments:
Post a Comment