غموں کی دھوپ سے خود کو بچانے آئے ہیں
ہم آج جشنِ مسرت منانے آئے ہیں
حیات و کشمکشِ روزگار میں ہم تو
کتابِ زیست کا عنواں بتانے آئے ہیں
جلا کے خانۂ دل میں چراغ الفت کے
نظامِ گلشنِ ہستی سنوارنے کے لئے
’’کلی کلی کو تبسم سکھانے آئے ہیں ‘‘
سہانی رات کی تنہائیوں کا حال نہ پوچھ
خیال و خواب میں منظر سہانے آئے ہیں
ادائے چشمِ تغافل کا دیکھئے عالم
نظر کا تیر وہ دل پر چلانے آئے ہیں
جنہیں سمجھتے تھے ہم اپنا مونس و ہمدم
ہماری راہ میں کانٹے بچھانے آئے ہیں
جو ہم کو زخم ہی دیتے رہے ہیں برسوں سے
وہ آج زخم پہ مرہم لگانے آئے ہیں
مٹا دو نفرتیں دل سے، ملو گلے سے گلے
نفاق و رنجشِ باہم مٹانے آئے ہیں
قدم قدم پہ ہوئے جن کے نام کے چرچے
وہ اپنے نام کا جادو جگانے آئے ہیں
ہمیں نہ دیکھو حقارت سے اس طرح عابدؔ
تمہارے واسطے ہم سر کٹانے آئے ہیں
عابد حسین عابد
No comments:
Post a Comment