تشنگی بے سبب نہیں ہوتی
مے کشی بے سبب نہیں ہوتی
محتسب خود بھی اس کا قائل ہے
زِندگی بے سبب نہیں ہوتی
دوستی بھی کبھی رہی ہو گی
گھر جلا ہے یا دل جلا ہے کوئی
روشنی بے سبب نہیں ہوتی
دخل ہوتا ہے کچھ نظر کو بھی
دلکشی بے سبب نہیں ہوتی
کسی طوفاں کی آمد آمد ہے
خامشی بے سبب نہیں ہوتی
کیا کسی کے ہو منتظر محسنؔ
بے کلی، بے سبب نہیں ہوتی
محسن بھوپالی
No comments:
Post a Comment