پائلیں بجتیں، بڑا شور ہوا کرتا تھا
حسنِ خوابیدہ بھی شہ زور ہوا کرتا تھا
رنگ و خوشبو تجھے جب بھیجتے گلشن کے گلاب
رخ ہواؤں کا تِری اور ہوا کرتا تھا
جب وہ زلفیں میرے شانے پہ کھُلا کرتی تھیں
آسمانوں پہ گھٹا چھاتی تو من آنگن میں
ناچنے کے لیے اِک مور ہوا کرتا تھا
لوحِ دل پر میں بنا لیتا تھا تصویر تِری
میں اکیلا بھی کہاں بور ہوا کرتا تھا
یہ مِری یادوں کی تاریخ میں لکھا ہے کہیں
کبھی لاہور بھی لاہور ہوا کرتا تھا
لعلِ لب چھین لیا کرتا تھا چھپ کر مسعودؔ
شہر میں حسن کا اِک چور ہوا کرتا تھا
مسعود منور
No comments:
Post a Comment