بکھرتے ٹوٹتے لمحوں کو اپنا ہم سفر جانا
کہ تھا اس راہ میں آخر ہمیں خود بھی بکھر جانا
دلِ آوارہ! کیا پابندِ زنجیرِ تعلق ہو
نہ تھا بس میں کسی کے بھی ہوا کو قید کر جانا
ہمیں تو ساتھ دینا ہے رفیقانِ تلاطم کا
ہوا کے دوش پر بادل کے ٹکڑے کی طرح ہم ہیں
کسی جھونکے سے پوچھیں گے کہ ہے ہم کو کدھر جانا
مِرے جلتے ہوئے گھر کی نشانی بس یہی ہو گی
جہاں اس شہر میں تم روشنی دیکھو، ٹھہر جانا
پسِ ظلمت کوئی سورج ہمارا منتظر ہو گا
اسی ایک وہم کو ہم نے چراغِ رہگزر جانا
دیارِ خاموشی سے کوئی رہ رہ کر بلاتا ہے
ہمیں مخمورؔ ایک دن ہے اسی آواز پر جانا
مخمور سعیدی
No comments:
Post a Comment