اپنی دنیا سے چلو میرے جہاں تک آؤ
راستہ بھولے تھے جس رہ پہ وہاں تک آؤ
سنو! مٹی کے بکھر جانے کے امکاں ہیں بہت
اس لیے روح سے ہو کر دل و جاں تک آؤ
میری خاموشی کے ہر لفظ کو محسوس کرو
سلسلے رہنے بھی دو چاہے ملاقاتوں کے
تم مگر روز مِرے وہم و گمان تک آؤ
اس زمیں پر ہے بہت بھِیڑ، یہاں سے نکلو
آسماں پر نہیں یہ لوگ، وہاں تک آؤ
ہمدم روح بدن نے تمہیں تسلیم کیا
اب ریاست میں جہاں چاہو وہاں تک آؤ
علینا عترت
No comments:
Post a Comment