نئے زمانے میں اب یہ کمال ہونے لگا
کہ قتل کر کے بھی قاتل نہال ہونے لگا
میری تباہی کا باعث جو ہے زمانے سے
اسی کو اب میرا کاہے خیال ہونے لگا
ہوائے عشق نے بھی گل کھلائے ہیں کیا کیا
شبِ فراق وہ کیسا تھا جشن یادوں کا
کہ جس کا ذکر بھی بعدِ وصال ہونے لگا
جو رنج و غم میں میرے ساتھ ساتھ تھا اب تک
اسے بھی میری خوشی سے ملال ہونے لگا
جہاں پہ منظر جلوہ تھا صرف وہم و گماں
وہیں پہ جلسۂ زہرہ جمال ہونے لگا
تمہارے قد سے اگر بڑھ رہی ہوں پرچھائیاں
سمجھ لو دھوپ کا وقتِ زوال ہونے لگا
نہ خود کو بیچا نہ کوئی خوشامدیں کیں ہیں
تو کیسے تم پہ یہ بیکلؔ سوال ہونے لگا
بیکل اتساہی
No comments:
Post a Comment