Tuesday, 16 August 2016

نئے زمانے میں اب یہ کمال ہونے لگا

نئے زمانے میں اب یہ کمال ہونے لگا
کہ قتل کر کے بھی قاتل نہال ہونے لگا
میری تباہی کا باعث جو ہے زمانے سے
اسی کو اب میرا کاہے خیال ہونے لگا
ہوائے عشق نے بھی گل کھلائے ہیں کیا کیا 
جو میرا حال تھا وہ تیرا حال ہونے لگا
شبِ فراق وہ کیسا تھا جشن یادوں کا 
کہ جس کا ذکر بھی بعدِ وصال ہونے لگا
جو رنج و غم میں میرے ساتھ ساتھ تھا اب تک 
اسے بھی میری خوشی سے ملال ہونے لگا
جہاں پہ منظر جلوہ تھا صرف وہم و گماں
وہیں پہ جلسۂ زہرہ جمال ہونے لگا
تمہارے قد سے اگر بڑھ رہی ہوں پرچھائیاں 
سمجھ لو دھوپ کا وقتِ زوال ہونے لگا
نہ خود کو بیچا نہ کوئی خوشامدیں کیں ہیں 
تو کیسے تم پہ یہ بیکلؔ سوال ہونے لگا

بیکل اتساہی

No comments:

Post a Comment