یوں گلستاں میں آئی بادِ نسیم
ہم صفیروں کا ساتھ چھوٹ گیا
میں نے پوچھا جو زندگی کیا ہے
ہاتھ سے گر کر جام ٹوٹ گیا
تِرے آنے سے اے نسیمِ بہار
اُف وہ اندازِ آبگینۂ دل
چوٹ غم کی لگی کہ ٹوٹ گیا
نوبہاروں کی جب دعا مانگی
گلستاں کا نصیب پھوٹ گیا
ہم نشے میں تھے تارِِ سازِِ نشاط
کھِنچ گیا اس قدر کہ ٹوٹ گیا
جگن ناتھ آزاد
No comments:
Post a Comment