یہ جو شیشوں کے کھنکنے کی صدا آتی ہے
کتنے بھولے ہوئے غم ہیں جنہیں دہراتی ہے
مجھ کو تنہا جو سرِ جادۂ غم پاتی ہے
ہمسفر بن کے تِری یاد چلی آتی ہے
اب وہ ہنگامۂ غم کم جو ہوا بھی ہے تو کیا
مِٹ چلیں عمرِ تمنا کی وہ یادیں،۔ لیکن
اک کسک سی ہے کہ ہستی میں ڈھلی جاتی ہے
تجھ سے نسبت، جو نہ ہر سانس میں محسوس کروں
زیست بے مقصد و مفہوم نظر آتی ہے
چارۂ دردِ دل اب یوں بھی نہ ہو گا مخمورؔ
اب طبیعت مۓ و مِینا سے بھی گھبراتی ہے
مخمور سعیدی
No comments:
Post a Comment