کیا گلہ غیروں کا خود ہی سانحہ لے کر چلے
پتھروں کے شہر میں ہم آئینہ لے کر چلے
ہم ہیں اور ان میں ازل کے روز جو حائل رہا
ہم وہی روز ابد تک فاصلہ لے کر چلے
باوجودِ کسمپرسی دل کہیں تنہا نہ تھا
ان دنوں کچھ جادہ و منزل کا عالم اور ہے
جس کو چلنا ہو فقیروں کی دعا لے کر چلے
جگن ناتھ آزاد
No comments:
Post a Comment