فریب کھایا تو پھر زیست پر عذاب اترے
وہ کیا گیا کہ محبت کے سارے خواب اترے
وہ جان و دل میں اترتا رہا سکوں بن کر
تھا قرب ایسا رگ و جاں میں ماہتاب اترے
میں جیسے رات کی رانی کی بھینی خوشبو ہوں
تھی زرد شاخ تھا موسم بھی آج پت جھڑ کا
کہاں سے آج وہ پھر صورتِ گلاب اترے
ڈھلی جو شام تو مجھ میں سمٹ گیا جیسے
قرار پانے سمندر میں میں آفتاب اترے
علیناؔ رات کے دامن میں کچھ دعائیں رکھے
افق پہ صبح کی لالی ہو، اور جواب اترے
علینا عترت
No comments:
Post a Comment