Sunday, 14 August 2016

فریب کھایا تو پھر زیست پر عذاب اترے

فریب کھایا تو پھر زیست پر عذاب اترے 
وہ کیا گیا کہ محبت کے سارے خواب اترے 
وہ جان و دل میں اترتا رہا سکوں بن کر 
تھا قرب ایسا رگ و جاں میں ماہتاب اترے
میں جیسے رات کی رانی کی بھینی خوشبو ہوں 
طلوع صبح تصور کا خواب خواب اترے
تھی زرد شاخ تھا موسم بھی آج پت جھڑ کا 
کہاں سے آج وہ پھر صورتِ گلاب اترے 
ڈھلی جو شام تو مجھ میں سمٹ گیا جیسے 
قرار پانے سمندر میں میں آفتاب اترے 
علیناؔ رات کے دامن میں کچھ دعائیں رکھے 
افق پہ صبح کی لالی ہو، اور جواب اترے 

علینا عترت

No comments:

Post a Comment