نہ پہنچیں گی نگاہیں ماورائے آسماں کب تک
رہے گا راہ میں حائل غبارِ کہکشاں کب تک
وطن کہتے تھے جس کو چھٹ گیا، اب دیکھنا یہ ہے
کہ رہتے ہیں دیارِ غیر میں ہم میہماں کب تک
قفس کی دلکشی میں تو کمی کوئی نہیں، لیکن
ذرا اتنا تو فرما دے کہ منزل کی تمنا میں
بھٹکتے ہم پھریں گے اے میرِ کارواں! کب تک
خزاں آئی گلستاں میں تو ہم سمجھے بہار آئی
نگاہِ شوق آخر یہ تِری خوش فہمیاں کب تک
بہ ذوق و شوق بحرِ عشق میں اے کودنے والے
یہ عالم ہے تو پھر اندیشۂ سود و زیاں کب تک
ذرا سوچو تو اے منزل کا رستہ بھولنے والو
بالآخر آزماؤ گے جفائے دشمناں کب تک
تعجب ہے پتہ خود باغبانوں کو نہیں اس کا
رہے گا اس طرح برہم مزاجِ بوستاں کب تک
اسیرانِ طلسمِ وہم سے آزادؔ یہ کہہ دو
یہ رنگ و نور و نکہت کا ہجومِ بیکراں کب تک
جگن ناتھ آزاد
No comments:
Post a Comment