خبر ملی ہے غمِ گردشِ جہاں سے مجھے
کہ دیکھتا ہے کوئی چشمِ مہرباں سے مجھے
تِرا خیال تھا، تیری نظر کے ساتھ گیا
زمانہ ڈھونڈ کے لائے گا اب کہاں سے مجھے
کہیں یہ تم تو نہیں، میری آرزو تو نہیں
شجر کہاں تھے صلیبیں گڑی تھیں گام بہ گام
رہِ طلب میں گزرنا پڑا کہاں سے مجھے
جہاں نِگاہ کو یارائے دَم زدن نہ ہوا
پیام آتے نہیں کیا اس آستاں سے مجھے
میں اجنبی تھا،۔ یہاں کون آشنا تھا مِرا
زمانہ جان گیا تیری داستاں سے مجھے
متاعِ زِیست تھے جو خواب، اخترؔ آج بھی ہیں
کبھی گِلہ نہ ہوا عمرِ رائیگاں سے مجھے
اختر ہوشیار پوری
No comments:
Post a Comment