نپٹیں گے دل سے معرکۂ رہگزر کے بعد
لیں گے سفر کا جائزہ ختمِ سفر کے بعد
اٹھنے کو ان کی بزم میں سب کی نظر اٹھی
اتنا مگر کہوں گا کہ میری نظر کے بعد
سب زور ہو رہا ہے مِری سرکشی پہ صَرف
کوئے ستم سے گزریں تو شوریدگانِ عشق
ہنسنے لگیں گے زخمِ جگر، زخمِ سر کے بعد
برقِ ستم کو نذر کروں بھی تو کیا کروں
اب کیا رہا ہے آگ لگانے کو گھر کے بعد
بے خواب کر رہے ہیں شبِ غم کے مرحلے
آنکھیں جھپک نہ جائیں طلوعِ سحر کے بعد
ہو گا طویل اور بھی افسانۂ وفا
اہلِ جفا کے طنطنۂ مختصر کے بعد
پرویز شاہدی
No comments:
Post a Comment