یہ دنیا بھی عجب قصہ ہے صاحب
نہیں لگتا، مگر دھوکا ہے صاحب
یہ چرچا جو ہمارے نام کا ہے
تمہارے عشق کا صدقہ ہے صاحب
ابھی پرہیز رکھئے گفتگو سے
طبیعت میں ذرا گرمی ہے اس کی
مگر وہ آدمی ہیرا ہے صاحب
تمہارے ہاں نہیں ہوتا ہے جو کچھ
ہمارے ہاں وہی ہوتا ہے صاحب
بچشمِ خشک مت پڑھنا اسے تم
کہ یہ مصرع نہیں، شعلہ ہے صاحب
بجا فرما رہے ہیں آپ یعنی
ہمیں کچھ اور ہی سودا ہے صاحب
اسے دیوارِ گریہ ہی سمجھئے
جنابِ میر کا حجرہ ہے صاحب
خدا کی شان ہے، جو تیرے آگے
اگر یہ آئینہ زندہ ہے صاحب
اب ایسے بھی تو لاوارث نہیں ہم
ہمارا بھی کوئی اپنا ہے صاحب
اسے خط میں فقط اتنا لکھا ہے
ترے بن جی نہیں لگتا ہے صاحب
تو یہ بھی کوئی چالاکی ہے اس کی
اگر وہ ان دنوں تنہا ہے صاحب
چلو جھوٹا سہی، لیکن یہ جھوٹا
ترے سچوں سے تو اچھا ہے صاحب
تو ظاہر ہے کہ پھر تیکھا تو ہو گا
علی زریون کا لہجہ ہے صاحب
علی زریون
No comments:
Post a Comment