اس قدر خوف ہے
خوف
گلیوں محلوں چوباروں
غریبوں کے ڈھاروں سے لے کر
امیروں کے محلوں تلک
ایک بستر پہ لیٹے ہوئے دو بدن
ایک دُوجے کی نیندوں سے مشکوک ہیں
ڈر میں لِپٹے ہوئے
"میں کہیں نیند میں ہی نہ سچ بول دوں"
"سن نہ لے یہ کہیں"
خوف
سیل فون کا پاس ورڈ اپنے قبضے میں رکھتا ہوا خوف
مسجد میں مشغولِ سجدہ نمازی کی حالت
کسی ممکنہ بم دھماکے کی آہٹ سے تبدیل کرتا ہوا
ہر طرف خوف ہے
ہر کوئی ایک دُوجے سے سہما ہوا
خوف اتنا اور ایسا کہ سوچیں بھی خاموش ہیں
بولنا تو کجا
سوچتے بھی سبھی ڈر رہے ہیں یہاں
کس قدر خوف ہے
کس سے خائف ہوں میں
کس سے خائف ہو تم
کس سے خائف ہیں ہم
خوف ٹُوٹے تو شاید پتا چل سکے
خوف اتنا بڑا بھی نہیں تھا کہ جتنا بنایا گیا
علی زریون
No comments:
Post a Comment