Tuesday 9 August 2016

اس قدر خوف ہے

اس قدر خوف ہے
خوف 
گلیوں محلوں چوباروں 
غریبوں کے ڈھاروں سے لے کر
امیروں کے محلوں تلک
ایک سا خوف ہے
ایک بستر پہ لیٹے ہوئے دو بدن
ایک دُوجے کی نیندوں سے مشکوک ہیں
ڈر میں لِپٹے ہوئے
"میں کہیں نیند میں ہی نہ سچ بول دوں"
"سن نہ لے یہ کہیں"
خوف
سیل فون کا پاس ورڈ اپنے قبضے میں رکھتا ہوا خوف
مسجد میں مشغولِ سجدہ نمازی کی حالت
کسی ممکنہ بم دھماکے کی آہٹ سے تبدیل کرتا ہوا
ہر طرف خوف ہے
ہر کوئی ایک دُوجے سے سہما ہوا
خوف اتنا اور ایسا کہ سوچیں بھی خاموش ہیں
بولنا تو کجا
سوچتے بھی سبھی ڈر رہے ہیں یہاں 
کس قدر خوف ہے 
کس سے خائف ہوں میں 
کس سے خائف ہو تم 
کس سے خائف ہیں ہم 
خوف ٹُوٹے تو شاید پتا چل سکے 
خوف اتنا بڑا بھی نہیں تھا کہ جتنا بنایا گیا

علی زریون

No comments:

Post a Comment