آ کے طوفانِ بلا دیکھ لے مے خانے میں
ہم سمندر کو ڈبو دیتے ہیں پیمانے میں
شان ہے موسمِ گل کی تِرے دیوانے میں
پھول ہی پھول نظر آتے ہیں ویرانے میں
رات کا رنگ اڑا جاتا ہے مے خانے میں
اپنے مرکز کی طرف جاتی ہے ہر شے اے شیخ
تیرا کعبہ بھی پہنچ جائے گا بت خانے میں
رقص فرما ہے فقط سینۂ محفل کی آگ
شمع ہی میں ہے کوئی سوز نہ پروانے میں
ہوں نہ اربابِ خرد بت شکنی پر نازاں
ہم سے، بت گرا بھی بیٹھے ہیں صنم خانے میں
پرویز شاہدی
No comments:
Post a Comment