Friday 12 August 2016

اک روشنی سی ہے کہ جو دیوار و در میں ہے

اِک روشنی سی ہے کہ جو دیوار و در میں ہے
میرے سوا بھی اور کوئی میرے گھر میں ہے
اچھا نہیں ہے وسعتِ دریا تِرا غرور
اِک بحرِ بیکراں بھی ہماری نظر میں ہے
کیا گُل کھلائے اور نیا ذہنِ آزری
پتھر ابھی تو دیکھئے دستِ ہنر میں ہے
آتا نہیں یقین، میں دریا کے پاس ہوں
وہ دشت وہ سراب ابھی تک نظر میں ہے
میں خود تو تھک کے بیٹھ گیا راہ میں شفیقؔ
اِک سانس ہے کہ جسم کے اندر سفر میں ہے

شفیق برنی

No comments:

Post a Comment