Monday, 15 August 2016

وہ رت جگا تھا کہ افسون خواب طاری تھا

وہ رت جگا تھا کہ افسونِ خواب طاری تھا
دِیئے کی لَو پہ ستاروں کا رقص جاری تھا
میں اس کو دیکھتا تھا دم بخود تھا حیراں تھا
کسے خبر وہ کڑا وقت کتنا بھاری تھا
گزرتے وقت نے کیا کیا نہ چارہ سازی کی
وگرنہ زخم جو اس نے دیا تھا، کاری تھا
دیارِ جاں میں بڑی دیر میں یہ بات کھلی
مِرا وجود ہی خود ننگِ دوست داری تھا
کسے بتاؤں میں اپنی نوا کا رمز اخترؔ؟؟
کہ حرف جو نہیں اترے میں انکا قاری تھا

اختر ہوشیار پوری

No comments:

Post a Comment