ہم جو مضموں کی ہوا باندھتے ہیں
رخت میں نقدِ بقا باندھتے ہیں
اہلِ فن لفظ و ندا میں دیکھو
کیسے سپنوں کا لکھا باندھتے ہیں
دل کے مَیلے ہیں جو کھولیں کیسے
جور بے طرح سخن میں لائیں
وہ جو زینب کی رِدا باندھتے ہیں
وہ جنہیں اَوج نشینوں سے ملے
طرّۂ ناز بڑا باندھتے ہیں
وسوسہ دل میں نہ پالیں کوئی
ہم کہ ہر عہد کھلا باندھتے ہیں
سوداکاری میں اَنا کی پڑ کے
لوگ جسموں کی بہا باندھتے ہیں
جو ہنرور ہیں نئی نسلوں کے
مٹھی مٹھی میں جلا باندھتے ہیں
وہ کہ موجد ہیں، درونِ مادہ
نو بہ نو عکس و صدا باندھتے ہیں
بیٹیاں عمر بِتائیں روتے
ان کو ماں باپ کُجا باندھتے ہیں
زور تن میں ہو تو ہر بات میں ہم
نا روا کو بھی روا باندھتے ہیں
ہو جہاں ذکرِ عقائد اس میں
ہم صنم تک کو خدا باندھتے ہیں
اپنے جیسوں پہ جو ڈھاتے ہیں ستم
اپنے پلّو میں وہ کیا باندھتے ہیں
سینہٗ شب میں کرے چھید وہی
ہم کہ جگنو کو دِیا باندھتے ہیں
ہم کبوتر کے پروں میں ماجدؔ
لطفِ یاراں کا صِلہ باندھتے ہیں
ماجد صدیقی
No comments:
Post a Comment