Sunday 14 August 2016

ذہن کے صحراؤں میں چلتی ہے طوفانی ہوا

ذہن کے صحراؤں میں چلتی ہے طوفانی ہوا 
ڈھونڈتی ہے جا بجا کیا جانے دیوانی ہوا
خود ہے سرگرداں کسی کی جستجو میں ہر گھڑی 
کیوں ہے میری خاک پر پھر اتنی حیرانی ہوا
دیکھ پھر طوفاں کی ضد سے ہو گئی گل روشنی 
تُو ہے پاگل تُو نے اس کی بات کیوں مانی ہوا
ہجر کی برفیلی وادی میں ٹھٹھرتا یہ بدن 
منجمد کرتی ہوئی احساس برفانی ہوا
تھا کتابِ زیست پر پہلے بھی اس کا اختیار 
ہر ورق سے آج بھی کرتی ہے من مانی ہوا
کچھ شجر کی بے لباسی وقت کی سازش سے تھی 
اور کچھ بنتی رہی تھی وجہِ عریانی ہوا
کوزہ گر نے جب مِری مٹی سے کی تخلیقِ نو 
ہو گئے خود جذب مجھ میں آگ اور پانی ہوا
مجھ سے ٹکراتی رہی، میں اس سے ٹکراتی رہی 
میں بھی کب مانی علیناؔ، جب نہیں مانی ہوا

علینا عترت 

No comments:

Post a Comment