ذہن کے صحراؤں میں چلتی ہے طوفانی ہوا
ڈھونڈتی ہے جا بجا کیا جانے دیوانی ہوا
خود ہے سرگرداں کسی کی جستجو میں ہر گھڑی
کیوں ہے میری خاک پر پھر اتنی حیرانی ہوا
دیکھ پھر طوفاں کی ضد سے ہو گئی گل روشنی
ہجر کی برفیلی وادی میں ٹھٹھرتا یہ بدن
منجمد کرتی ہوئی احساس برفانی ہوا
تھا کتابِ زیست پر پہلے بھی اس کا اختیار
ہر ورق سے آج بھی کرتی ہے من مانی ہوا
کچھ شجر کی بے لباسی وقت کی سازش سے تھی
اور کچھ بنتی رہی تھی وجہِ عریانی ہوا
کوزہ گر نے جب مِری مٹی سے کی تخلیقِ نو
ہو گئے خود جذب مجھ میں آگ اور پانی ہوا
مجھ سے ٹکراتی رہی، میں اس سے ٹکراتی رہی
میں بھی کب مانی علیناؔ، جب نہیں مانی ہوا
علینا عترت
No comments:
Post a Comment