Saturday 20 August 2016

دیارِ شوق کے خوابیدہ راستے جاگے

دیار شوق کے خوابیدہ راستے جاگے
خدا کا شکر بہاروں کے قافلے جاگے
مٹا رہی ہیں بہاریں نقوشِ عہدِ خزاں
ہر اک چمن میں فسوں کار قہقہے جاگے
رِدائے خاک سے رفعت شعور سبزہ اٹھا
وجودِ سنگ میں اگنے کے واہمے جاگے
شکستہ ہونے لگے سنگ ہائے مجبوری
خموش پانی میں شوریدہ دائرے جاگے
گھروں میں خوشیوں کے مہمان آنے والے ہیں
خبر شناس پرندوں کے حافظے جاگے

سعادت سعید

No comments:

Post a Comment