Tuesday 16 August 2016

بے نام ہوں بے کار ہوں بدنام نہیں ہوں

بے نام ہوں، بے کار ہوں، بدنام نہیں ہوں
شاعر ہوں مگر مستِ مۓ خام نہیں ہوں
اک عمر ترے در پہ ہی سجدوں میں کٹی ہے
یہ کیسے کہا،۔۔ واقفِ اسلام نہیں ہوں
اتنا نہ ستا، دیکھ! مجھے گردشِ دوراں
کمزور ہوں،۔ شائستۂ آلام نہیں ہوں
مذہب ہے مِرا عشق تو مسلک ہے محبت
”اس باب میں تو موردِ الزام نہیں ہوں“
دن رات جو ہیں مجھ پہ عنایاتِ مسلسل
اتنا تو برا اے غمِ ایام! نہیں ہوں
ہر اشک چراغِ شبِ امید ہے میرا
جو راہ تکے صبح کی وہ شام نہیں ہوں
آدابِ محبت سے ہوں واقف میں یقیناً
ہاں یہ ہے کہ پابندِ رہِ عام نہیں ہوں
کیا چھوڑ دوں دنیا کے لئے گوشہ نشینی
صد شکر ہے سرورؔ کہ میں خودکام نہیں ہوں

سرور عالم راز

No comments:

Post a Comment