پرندے اب بھی پر تولے ہوئے ہیں
ہوا میں سنسنی گھولے ہوئے ہیں
تمہِیں کمزور پڑتے جا رہے ہو
تمہارے خواب تو شعلے ہوئے ہیں
غضب ہے سچ کو سچ کہتے نہیں وہ
مزاروں سے دعائیں مانگتے ہو
عقیدے کس قدر پولے ہوئے ہیں
ہمارے ہاتھ تو کاٹے گئے ہیں
ہمارے پاؤں بھی چھولے ہوئے ہیں
ہمارے ہاتھ تو کاٹے گئے ہیں
ہمارے پاؤں بھی چھولے ہوئے ہیں
کبھی کشتی، کبھی بطخ، کبھی جل
سیاست کے کئی چولے ہوئے ہیں
ہمارا قد سمٹ کر مٹ گیا ہے
ہمارے پیرہن جھولے ہوئے ہیں
چڑھاتا پھر رہا ہوں جو چڑھاوے
تمہارے نام پر بولے ہوئے ہیں
دشینت کمار
No comments:
Post a Comment