دل تو ناداں ہے تِرے ساتھ کی ضد کرتا ہے
کتنا پاگل ہے بِنا بات کی ضد کرتا ہے
چاہتا ہے وہ کسی آگ میں جل کر دیکھے
تپتے سورج سے ملاقات کی ضد کرتا ہے
چاند کے دیس کی پریوں کی کہانی سن کر
دیکھ کر پھول سے لِپٹا ہوا خوشبو کا بدن
ان کی چاہت پہ سوالات کی ضد کرتا ہے
شہرِ الفت میں جدائی کا بھلا کیوں ہے رواج
توڑ دوں ایسی روایات کی زد کرتا ہے
کیسے سمجھائےٴ علیناؔ ہیں عجب عشق کے رنگ
جیتنے والا یہاں مات کی ضد کرتا ہے
علینا عترت
No comments:
Post a Comment