Sunday, 14 August 2016

دل تو ناداں ہے ترے ساتھ کی ضد کرتا ہے

دل تو ناداں ہے تِرے ساتھ کی ضد کرتا ہے 
کتنا پاگل ہے بِنا بات کی ضد کرتا ہے
چاہتا ہے وہ کسی آگ میں جل کر دیکھے
تپتے سورج سے ملاقات کی ضد کرتا ہے
چاند کے دیس کی پریوں کی کہانی سن کر
کسی جادو کی طلسمات کی ضد کرتا ہے 
دیکھ کر پھول سے لِپٹا ہوا خوشبو کا بدن
ان کی چاہت پہ سوالات کی ضد کرتا ہے
شہرِ الفت میں جدائی کا بھلا کیوں ہے رواج 
توڑ دوں ایسی روایات کی زد کرتا ہے 
کیسے سمجھائےٴ علیناؔ ہیں عجب عشق کے رنگ 
جیتنے والا یہاں مات کی ضد کرتا ہے 

علینا عترت

No comments:

Post a Comment