Monday 8 August 2016

ذرا کچھ اور قربت زیر داماں لڑکھڑاتے ہیں

ذرا کچھ اور قربت زیر داماں لڑکھڑاتے ہیں
مۓ شعلہ فگن پی کر گلستاں لڑکھڑاتے ہیں
تخیل سے گزرتے ہیں تو نغمے چونک اٹھتے ہیں
تصور میں با انداز بہاراں لڑکھڑاتے ہیں
قرار دین و دنیا آپ کی بانہوں میں لرزاں ہیں
سہارے دیکھ کر زلف پریشاں لڑکھڑاتے ہیں
تِری آنکھوں کے افسانے بھی پیمانے ہیں مستی کے
بنامِ ہوش، مدہوشی کے عنواں لڑکھڑاتے ہیں
سنو! اے عشق میں توقیر ہستی ڈھونڈنے والو
یہ وہ منزل ہے جس منزل پہ انساں لڑکھڑاتے ہیں
تمہارا نام لیتا ہوں فضائیں رقص کرتی ہیں
تمہاری یاد آتی ہے تو ارماں لڑکھڑاتے ہیں
کہیں سے مۓ کدے میں اس طرح کے آدمی لاؤ
کہ جن کی جنبشِ ابرو سے ایماں لڑکھڑاتے ہیں
یقیناً حشر کی تقریب کے لمحات آ پہنچے
قدم ساغرؔ قریبِ کوئے جاناں لڑکھڑاتے ہیں

ساغر صدیقی

No comments:

Post a Comment