میری آنکھوں میں امنڈ آیا ہے دریا دل کا
پھر کہیں ٹوٹ گیا ہو نا کنارا دل کا
بس محبت سے روایات ہے کہانی دل کی
چار حرفوں سے عبارت ہے فسانہ دل کا
سانس رکتی ہے تو پھر جان کا خیال آتا ہے
اسی کوشش میں بہت عمر گنوا دی میں نے
پھر بھی پورا نا ہوا مجھ سے خسارا دل کا
میری پایاب تمنائیں بتاتی ہیں مجھے
سوکھ جائے گا کچھ روز میں دریا دل کا
بدلی بدلی سی صدا دیتی ہے دھڑکن دل کی
ہجر میں اور ہی ہو جاتا ہے لہجہ دل کا
کیوں نا اے دوست ابھی ترکِ محبت کر لیں
اس سے پہلے کے بدل جائے ارادہ دل کا
فکر دنیا میں میرے دل کو بھلانے والے
تیری دنیا سے زیادہ ہے اثاثہ دل کا
عشق کاٹے گا ابھی اور چاہتیں ساغرؔ
عقل دیکھے گی ابھی اور تماشہ دل کا
ساغر صدیقی
No comments:
Post a Comment